info@majlissautulislam.com
© Copyright 2017 Saut-ul-Islam Pakistan All Rights Reserved
Email:
01:30
sautulislampk@gmail.com
+ 92 21 35363159 - 35867580  Fax: + 92 21 35873324
05:15
08:15
Example
اسلام ایک ایسا عالمگیر مذہب ہے جس نے زندگی کے ہر پہلو کو اجاگر کیا ہے ۔اقوام وممالک اور فرد کو جو مسائل پیش آتے ہیں ان تمام مسائل میں رہنمائی کرنا مذہب اسلام کا ہی طرۂ امتیاز ہے، اقوام عالم میں روابط قائم رکھنے کیلئے جس فرد یا گروہ کا انتخاب کیا جاتا ہے اس کو سفیر، مندوب یانمائندگان کہا جاتا ہے کسی قوم کا یا ملک وملت سے ربط رکھنا اور ان روابط کے ذریعے عالمی مسائل کو حل کرنا آج کے دور میں ایک اہم اور انتہائی اہمیت کا حامل شعبہ ہے۔بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ سفیر ہی ایک ملک ہوتاہے تو بے جا نہ ہوگا۔

سفارت کاری دور انبیاء سے موجود ہے اور نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے دور نبوت میں تو یہ شعبہ عروج پر رہا اور جو عزت افزائی اور مقام سفراء کو یا وفود کو دور نبوت میں ملا پہلے نہیں تھا۔تاریخی کتب اسلامی سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ اور خلفاء راشدین سفراء کے ساتھ جس حسن سلوک سے پیش آتے تھے اس کی مثال دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔

کسی ملک کے سفیر کی عزت کرنا اس کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنا آپ ﷺ کے اخلاق عالیہ کابہت اہم حصہ تھا ،ہمارے پیارے نبی ﷺ کی  نظر میں سفیر یا وفد کی کتنی اہمیت تھی اس کا اندازہ آپ اس روایت سے بخوبی لگاسکتے ہیں کہ جس میں آپ ﷺ نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا تھا ’’اجیزو الوفد بنحو ماکنت اُجیزھم‘‘(بخاری شریف جلد اول باب اخراج الیھود من جزیرۃ العرب)

آپ ﷺ نے اس دنیا سے جاتے ہوئے بھی یہ فرمایاکہ کسی ملک کے وفد، سفیر کو کہ جب وہ تمہارے پاس آئے تو بغیر اکرام کے واپس نہ بھیجنا بلکہ اس کو تحفہ ضرور دینا کہ جس طرح میں وفود کو تحائف دیا کرتا تھا۔ خیال رہے کہ آپ ﷺ ہمیشہ سفیروں کا عمدہ اکرام فرماتے اور تحائف دے کر واپس بھیجتے تھے۔جس کا ذکر اکثر روایات میں ملتا ہے۔

 ایک مرتبہ شوال کے مہینے میں قبیلہ سلامان کا وفد آپﷺ کے پاس آیا جن کا سردار حبیب بن عمرو تھا جب وہ اپنے شہر کی طرف واپس جانے لگے تو آپ ﷺ نے ان میں سے ہر ایک کو پانچ اوقیہ چاندی تحفہ میں دی روایت کے الفاظ ہیں ’’فاعطی کل واحد منھم خمس اواقٍ من فضۃ‘‘ (بحوالہ بذل القوۃ ص721مصنف علامہ محمد ہاشم ٹھٹویؒ)۔ایک دفعہ قبیلہ غسان کا وفد آیا تو آپ ﷺ نے ان کو بھی بحسب عادت تحائف دے کر روانہ کیا(بزل القوۃ ص722)

آپ ﷺ عفو حلم کے پیکر تھے جب سن 9ھ میں طائف کا وفد آیا (یہ ان لوگوں میں سے یا وہی لوگ تھے جنہوں نے آپ ﷺ پر ظلم کے پہاڑ توڑے اور خون سے نعلین مبارک سرخ ہوگئے تھے۔)تو آپ ﷺ نے صحن مسجد میں ان کو مہمان بناکر رکھا اور عزت وحرمت کے ساتھ پیش آئے (ابودائود باب ذکر طائف)

اسی طرح نصاریٰ کا وفد جب نجران سے مدینہ حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے اس کی مہمانداری کی ،مسجد نبوی میں ان کو نہ صرف جگہ دی بلکہ ان کو اپنے طریقے پر مسجد میں نماز پڑھنے کی بھی اجازت دی اور جب عام مسلمانوں نے ان کو اس کام سے روکنا چاہا تو آپ ﷺ نے منع فرمایا (صحیح مسلم کتاب الادب ج2صف239)

مزنیہ ایک بڑا قبیلہ تھا جو مصر تک پہنچ کر قریش کے خاندان سے مل جاتا ہے، نعمان بن مقرن مشہور صحابیؓ اسی قبیلہ سے تھے ۔سن 5ھ میں اس قبیلہ کے 400افراد  قبیلے کے  سفیر بن کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آئے اور اسلام لائے بحسب عادت آپﷺ نے تمام کو مختلف قسم کے تحائف دیکر روانہ کیا(اصابہ فی احوال الصحابہ (ترجمہ نعمان بن مقرن)

قبیلہ بنو سعد عرب کا ایک بہت بڑا طاقتور قبیلہ تھا اس کی طرف سے ضحام بن ثعلبہ سفیر ہوکر بارگاہ رسالتؐ میں حاضر ہوئے اور آتے ہی عرض کیا کہ ’’محمدﷺ‘‘ میں آپ ﷺ سے سختی سے سوال کروں گا برا نہ ماننا چنانچہ اس نے اسی لہجہ میں سختی سے متواتر سوال کئے لیکن حضور اکرم ﷺ نے نہایت متانت سے جواب دیئے اور اس کی عزت کی اس کے ساتھ شفقت کا برتائو کیا ۔یہ روایت صحیح بخاری میں مختلف ابواب میں منقول ہے (بحوالہ سیرت النبی علامہ شبلی نعمانی ص40ج2) اور (معاشرۃ النبی مصنف، متین طارق باغپتی ص289)

ایک مرتبہ نجاشی کے یہاں سے سفارت آئی آپ ﷺ نے ان کو اپنے ہاں مہمان رکھا اور بہ نفس نفیس میزبانی کے فرائض سرانجام دیئے، صحابہؓ نے عرض کیا کہ ’’ہم یہ خدمت انجام دیں گے‘‘ ارشاد ہوا ان لوگوں نے میرے دوستوں کی خدمت کی ہے اس لئے میں خود ان کی مدارت کرنا چاہتا ہوں (معاشرۃ النبی مصنف متین طارق ص197)

بنو اسد یہ وہ قبیلہ ہے جو لڑائیوں میں قریش کا دست وبازو تھا طلیحہ بن خویلد جس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا اسی قبیلہ سے تھا ،اس قبیلے کے لوگ سن9ھ میں اسلام لائے اور سفارت بھیجی لیکن اب تک ان کے دماغ میں فخر کا نشہ باقی تھا ،سفراء دربار رسالت میں آئے تو احسان کے لہجے میں کہا کہ آپ نے ہمارے پاس کوئی مہم نہیں بھیجی بلکہ ہم نے خود اسلام قبول کیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ’’یمنون علیک وان اسلمو قل لاتمنو علی اسلامکم بل اللہ یمن علیکم ‘‘ (سورۃ حجرات)

کندہ یہ حضرت موت (یمن) کے اضلاع میں سے ایک شہر تھا یہاں کندی خاندان کی سلطنت تھی اس زمانہ میں اس خاندان کے حاکم اشعث بن قیس تھے یہ سن 10ھ میں 80لوگوں کے وفد کے ساتھ آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے یہ پہلے اسلام قبول کرچکے تھے، آنحضرت ﷺ نے ان کو دیکھ کر فرمایا ! کیا تم لوگ مسلمان نہیں ہوئے ہو؟ وہ بولے ہاں ہم مسلمان ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا پھر یہ حریر (ریشمی کپڑا) کیسا؟ ان لوگوں نے فوراً چادریں پھاڑ کر زمین پر ڈال دیں۔ رخصتی کے وقت آپ ﷺ نے ان کو بھی بحسب روایت تحائف دیکر روانہ کیا۔ (سیرت ابن ہشام وفد کندہ)

اگر مذکورہ تمام واقعات کی روشنی میں حضور نبی کریم ﷺ کے مسلم وغیر مسلم سفراء سے حسن سلوک پر غور کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ آپ ﷺ نے سفیروں کی عزت ،مہمان نوازی واکرام میں کسی پس وپیش سے کام نہیں لیا۔ اگر کوئی مسلمان ہونے کے باوجود بھی غیر شرعی کام میں ملوث ہے تو آپ ﷺ نے کس پیار سے ان کی تربیت فرمائی ہے، حتیٰ کہ جب نجران کا وفد آیا تھا اور ان لوگوں نے اپنے طریقے پر عبادت کی تو آپ ﷺ نے ان کو اس کی اجازت عطا فرمائی اور صحابہؓ کو منع فرمایا کہ ان کو نہ روکا جائے چونکہ وہ سفیر تھے تو آپ ﷺ نے ان کا احترام کرتے ہوئے اپنی مسجد میں ان کو اپنے طریقے سے عبادت کی اجازت دی۔ اسلامی تعلیمات و قوانین کی روشنی میں ہمیں بھی یہ ہی درس ملتا ہے کہ سفراء کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں چونکہ سفیر کی حیثیت فرد واحد کی نہیں ہوتی بلکہ ایک ملک کی حیثیت ہوتی ہے گویا کہ سفیر کو ایک ملک تصور کیا جاتا ہے اور کسی بھی ملک کے سفارت خانے میں ہمارے ملک کے قوانین نافذ نہیں ہوسکتے کیونکہ وہ سفارت خانہ بحیثیت ایک ملک کے ہے تو وہاں قانون بھی اسی ملک کا رائج ہوگا جس طرح کہ وفد نجران میں آپ ﷺ نے ان کو ان کے قانون پر عمل کرنے کی اجازت دی۔

بات یہاں تک ختم نہیں ہوئی بلکہ آپ ﷺ نے تو سفراء ونمائندگان کیلئے الگ رہنے کا بندوبست فرمایا تھا جب کسی ملک کا سفیر آتا تو اس کو اس مخصوص جگہ میں ٹھہرایا جاتا اور اس کی خوب خدمت کی جاتی ،حضرت رملہؓ ایک صحابیہ تھیں ان کا گھر ’’دارالضیوف‘‘ تھا مہمان لوگ یہاں پر ٹھہرتے تھے (زرقانی ذکر وفود)

ام شریکؓ جو ایک دولتمند اور فیاض انصاریہ تھیںان کا گھر بھی گویا ایک مہمان خانہ تھا مخصوص لوگ مسجد نبوی ؐمیں ٹھہرائے  جاتے تھے باقی حضرات کو مہمان خانہ میں اتارا جاتا تھا چنانچہ وفد ثقیف کو حضرت ام شریکؓ کے گھرٹھہرایا  گیا (مسلم جلد 2ص 519ذکر وفد ثقیف)

اس طرح پرتکلف اہتمام فرمانا اور تحائف سے نوازنا آپ ﷺ کا سفراء کی حیثیت کو بتانا مقصود تھا۔ سفراء کے ساتھ حسن سلوک چونکہ اسلامی تعلیمات کے پیش نظر بہت اہمیت کا حامل ہے اور سفیر چونکہ نمائندہ ملک ہوتا ہے تو سفیر کی عزت کرنا گویا ملک کی عزت کرنا ہے ۔سفراء کے ساتھ حسن سلوک بھی اقوام عالم کے تعلق کی بقاء کا واحد ذریعہ ہے۔

ہمارا ملک چونکہ اسلامی بنیاد پر قیام پذیر ہوا تھا لہٰذا ہمیں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سفیروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے حتیٰ الامکان ان کو تحفے تحائف دینے چاہئیں اسی سے ہمارے ملک کا تعلق دوسری اقوام عالم سے مضبوط ہوگا۔کسی معاملے پر اگر کسی سفارتخانے کو احتجاج ریکارڈ کرانا بھی ہو تو احترام سفراء ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہئے۔

سفیر صرف ایک شخص نہیں بلکہ ایک ملک ہوتا ہے
سفراء ونمائندگان کے ساتھ آپﷺ کا حسن سلوک
مولوی عبیداللہ سندھی نائچاستاذ جامعہ اسلامیہ کلفٹن